پاکستان کی خاموشی کو اس کی کمزوری سمجھا جا رہا تھا۔ ابھی نندن گرا تھا تو کہا گیا تھا کہ اس وقت ہمارے پاس سسرا ”راپھیلوا“ نہیں تھا۔ یہ تصور کر لیا گیا تھا کہ رافیل اور S-400کی موجودگی میں پاکستان ”چُسکے“ گا بھی نہیں۔ دشمن کی معیشت، دفاعی بجٹ اور زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی اس کے غرور کو بڑھاوا دے رہے تھے۔ قصہ مختصر وہ اس خطے کا چودھری بننا چاہتا تھا۔ انکل سام بھی چین کا راستہ روکنے کے لئے اسی علاقائی غنڈے پر انحصار کیے بیٹھا تھا۔ اس کے علاوہ بھی متعدد خارجی عوامل تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کچھ داخلی عوامل بھی تھے مثلاً یہاں کے ایک نادان طبقے نے اسے باور کرا دیا تھا کہ پاکستانی قوم اپنی فوج کے ساتھ نہیں،بلکہ بصورت جنگ وہ تو اس کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ہی دشمن نے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کی تھی، لیکن بدلے میں اسے چائے پلائی گئی تھی لہذا وہ بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہو چکا تھا۔ان داخلی اور خارجی عوامل نے اسے ہلاشیری دی، اس نے پہلگام سکرپٹ لکھااور سکائی فورس جیسی فلم دہرانے چل نکلا لیکن وہ بھول گیا کہ کسی بھی کمزور سکرپٹ پر ایک جاندار فلم نہیں بنائی جا سکتی۔ بہرحال پاکستان کو تر نوالہ سمجھتے ہوئے وہ پاکستان پر پل پڑا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ ایک تاریخ ہے۔تاریخ بھی دس تھی، بنیان کے حروف بھی دس تھے اور مرصوص کے حروف بھی دس تھے۔ دس بائی دس کا نتیجہ سو تھا جو پاکستانی فوج نے دیا اور دنیا نے سو فیصد ہی تسلیم کیا۔ ہر نشانہ سو فیصد تھا اور ہر حکمت عملی بھی سو فیصد تھی۔ ابھی ایک دن بھی نہیں گزرا تھا کہ انکل سام کہہ رہا تھا کہ یہ پاکستان اور بھارت کا اپنا معاملہ ہے ہم بیچ میں نہیں آئیں گے۔یہ غیرجانبداری نہیں تھی بلکہ ایک تھپکی تھی، لیکن جب شاہینوں نے جواب دیا، امر سمجھا جانے والا ”رافیلوا“ کباڑ کا ڈھیر بن گیا، S-400 قصہ پارینہ بن گیااور کئی اہم مقامات ملبے میں تبدیل ہو گئے تو انکل جی بھتیجے کی مدد کو پہنچے اور سیزفائر کی اپیل کر دی۔ یعنی ثابت ہوا کہ پاکستان آرمی ایک برینڈ ہے۔
پاکستان کی فتح صرف فتح نہیں،بلکہ ”فتح مبین“ (روشن فتح)ہے جسے پوری دنیا ایک کیس ستڈی کے طور لے رہی ہے۔ لہٰذا مجھے اس پر نہیں لکھنا بلکہ مجھے اپنوں کی نادانی پر لکھنا ہے جن کے نزدیک ”شخص“ کی اہمیت ملک سے زیادہ ہے۔ جب پوری دنیا چیخ رہی تھی کہ پاکستانی شاہینوں نے رافیل مار کر دنیا کی تاریخ میں انہونی کر دی ہے تو اس وقت اس شخص کی بہن اور ”پجاری“ بھاشن دے رہے تھے کہ ایساکچھ نہیں ہوا اور پاکستان جھوٹ بول رہا ہے۔ دوسری جانب دشمن جھوٹ بول رہا تھا کہ ہم نے پاکستان کا فلاں فلاں طیارہ مار گرایا ہے اور یہ نادان دشمن سے ثبوت مانگنے کی بجائے اس کا جھوٹ شیئر کر رہے تھے۔ سوال کے نام پر غلاظت بکھیر رہے تھے اور اس کو شعور کا نام دے رہے تھے۔ نادان جنگی نزاکتوں کو سمجھنے سے قاصر یہ نادان پاکستانی شاہینوں کو اتنا وقت بھی دینے کے لئے تیار نہیں تھے جتنا وقت ان کو ایک جلسے کے لئے درکار ہوتا ہے۔ پاکستان چیخ رہا تھا کہ اگر اس وقت جواب دیتے تو پاکستانی فضائی حدود میں محو ِ پرواز 58کے قریب مسافر بردار جہازوں کو خطرہ ہو سکتا تھا، لیکن یہ اس حکمت کو بزدلی سے تعبیر کر رہے تھے۔غزوہ احد میں واضح کر دیا گیا کہ کسی بھی حال میں اپنی پوزیشن نہیں چھوڑنی لیکن یہ نادان محض اپنے بغض کی تسکین اور ایک شخص کی محبت میں جھوٹی خبریں (مثلا فیصل مسجد میں ڈرون اٹیک)پھیلا کر نہ صرف انتظامیہ اور اداروں کی توجہ منتشر کر رہے تھے بلکہ اپنے اپنے محاذ کی چوٹیوں پر ڈٹے جوانوں سے ان کی پوزیشنیں چھڑوانے کی مذموم سعی بھی کر رہے تھے۔ پارلیمنٹ کے فلور تک سے دشمن ملک کو پیغام دیا گیا کہ آجاؤ، تمہارا راستہ مبارک ہو، کیونکہ قوم اس وقت فوج کی پشت پر نہیں ہے۔ اس سے پہلے ملک دشمن طبقے کے اس نظریے کو بھی ان نادانوں نے سکولوں اور کالجوں تک پھیلا دیا تھا کہ مطالعہ پاکستان مغالطہ پاکستان ہے اور پاکستانی بچوں کو غلط تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔ میرا ان نادانوں سے سوال ہے کہ10 مئی کے واقعات کو تم اپنے درست مطالعہ پاکستان میں کیسے لکھو گے؟دشمن تو ہمارا نظریہ ختم کرنا چاہتا ہے، کیونکہ اسے معلوم ہے کہ نظریے کے بغیر دنیا کی کوئی قوم لڑ ہی نہیں سکتی، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ نادان ان کے آلہ کار کیوں بنے ہوئے ہیں؟نادان طبقہ ”دو دن ہو گئے پاکستان بدلہ نہیں لے رہا،فوج امریکہ سے ڈر گئی ہے، سیاستدان بک گئے ہیں“ کا راگ الاپ کر عوام میں مایوس اور ان میں فوج کی نفرت پیدا کر رہا تھااور ہم جیسے چند لوگ بتا رہے تھے کہ جواب دینے کے لئے ٹارگٹ ڈھونڈا جاتا ہے، اسے لاک کیا جاتا ہے، وہاں دفاعی اور حفاظتی انتظامات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور پھر ایک ناقابل تسخیر حکمت عملی چنی جاتی ہے تاکہ حملہ ناکام نہ جائے۔تو جناب یہ دشمن ملک میں کامیاب حملہ کرنا ہے نہ کہ اپنے ہی ملک کے دارالحکومت میں کھڑے درختوں کو آگ لگانا۔لہٰذا اس کے لئے وقت تو چاہئے تھا۔
فہرست طویل ہے لیکن کالم کی تنگ دامنی بھی پیش نظر ہے۔لہٰذا اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ اس جنگ میں پاکستان ایک طرف دشمن کی مکاری، عیاری اور طاقت سے لڑ رہا تھا اور دوسری طرف اپنے نادان کی جہالت، بغض اور ناسمجھی سے بھی لڑ رہا تھا۔لہٰذا گزارش ہے کہ اب اس اپنے کا ”علاج“ ہونا چاہئے تاکہ اان کا اگلا پتھر اپنے گھر کی بجائے دشمن کی طرف جائے۔
٭٭٭٭٭